Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Par 6


٭چھٹا ب
ابدوسرےدن سیف الدین کی گرفتاری کی خبریں نمایاں انداز میں تھیں خبریں کچھ اس انداز سےشائع ہوئی تھیں کہ جو پڑھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا ۔”نوٹیا گاو
¿ں سےپاکستانی ایجنٹ گرفتار....پاکستان کےخفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کےسب سےخطرناک ایجنٹ سیف الدین کو پولیس نےاس کے٠١ ساتھیوںکےساتھ گرفتار کیا .... بی جےپی اور بجرنگ دل کےصدر پر قاتلانہ حملہ کرنےوالےپاکستانی ایجنٹ کی گرفتاری .... گرفتار شدہ پاکستانی ایجنٹ کئی سالوں سےپاکستان کی خفیہ ایجنسی کےلیےکام کررہا ہی۔ اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہی۔ اس نےممبئی کےطرز پر گجرات کےمختلف شہروں میں بم دھماکےکرنےکی منصوبہ بنارکھا تھا۔ اس کےعلاوہ ملک کی فوجی نوعیت کی تنصیبات کو نشانہ بنانےکا پلان بنایاتھا ۔ممکن ہےتلاش میں اس کےہوٹل سےخطرناک ہتھیار اور گولہ بارود برآمد ہو.... سیف الدین نےنوٹیا گاو
¿ں کو ملک دشمن سرگرمیوں کا اڈا بنارکھا تھا ۔اسکےاور بھی ساتھی اس وقت گاو
¿ں میں موجود ہی۔ اگر ان کی گرفتاری جلد عمل میں نہیں آئی تو یہ ملک کےلیےخطرہ ثابت ہوسکتی ہی۔ ممکن ہی۔ نوٹیا کےگھروں کی تلاشی کی جائےتو انگھروں سےمہلک ہتھیار برآمد ہو۔ سیف الدین اور اس کےساتھیوں پر پوٹا لگا کر اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائی۔ “”اس کےہاتھوں زخمی ہونےوالےگاو
¿ں کےہر دلعزیز لیڈر بی جےپی کےرہنما اور بجرنگ دل کےصدر مہندر بھائی پٹیل کی حالت بد ستور ،تشویشناک ہی۔ ڈاکٹروں نےاب بھی انھیں خطرےسےباہر قرار نہیں دیا ہی۔ “اسےتو گجراتی پڑھنی نہیں آتی تھی لیکن لوگ آکر اسےاخبارات کی خبریں سناتےتھےاو ر اس کی دوکان پرکھڑےہوکر تبصرہ کرتےتھی۔ جہاں تک وہ سیف الدین کو جانتا تھا وہ ایک سیدھا سادھا ا نسان تھا ۔اس کا پالیٹکس ،غنڈہ گردی یا ملک دشمن سرگرمیوں سےدور کا بھی واستہ نہیں تھا۔ لیکن تمام اہم گجراتی اخبارات نےاس کےخلاف ایک سےالزامات لگا کر اسےملک کا سب سےبڑا دشمن اور غنڈہ قرار دےدیا تھا۔ اور جس مہندر کی حالت تشویشناک بتائی گئی تھی وہ دندناتا گاو
¿ں میں گھوم رہا تھا ۔اصلیت تو وہ اورنوٹیا گاو
¿ں کےلوگ جانتےتھی۔ جولوگ اخبارات میں یہ خبریں پڑھیں گےوہ تو سچ سمجھیں گےاور سیف الدین کو پاکستانی ایجنٹ ،ملک دشمن ،بہت بڑا غنڈہ ہی سمجھیں گی۔ جو نوٹیا گاو
¿ں میں ملک دشمن سرگرمیاں چلا رہا تھا۔ باتوں میں کتنی سچائی ہےوہ جانتا تھا ....ہر کوئی جانتا تھا۔ لیکن کون اس کےخلاف آواز اٹھا کر سچائی بیان کرسکتا تھا ۔اسےپنجاب میں دہشت گردی کازمانہ یاد آیا۔اسی طرح کی خبریں اس وقت بھی اخبارات کی زینت بنا کرتی تھی۔ پولیس نےذاتی دشمنی سےکسی معصوم کو گولی مار دی بھی تو اس معصوم کو بہت بڑا دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا۔ اور اخبارات میں ایک بےگناہ کیپولیس کےہاتھوں موت کی خبر کےبجائےایک دہشت گرد کےانکاو
¿نٹر کی خبریں آتی تھیں۔ دو پڑوسی اگر لڑتےتو اس میں ایک کو دہشت گرد قرار دےکر اسےاخباروں کی سرخیوں کی زینت بنادیا جاتا تھا۔گاو
¿ں میں ایک معمولی واقعہ ہوتا تو اسےدہشت گردی کی عینک سےدیکھ کر اسےملک کا سب سےبڑا واقعہ بنا دیا جاتا تھا۔ اسےلگا دہشت گردی کی ذہنیت ہر جگہ کام کررہی ہی۔ جو کچھ پنجاب میں ہوا تھا۔ اب گجرات میں ہورہا ہی۔ کھلاڑی رہی ہے....میدان بدل گئےہیں.... کھیل وہی ہے.... کھیل کےٹارگیٹ بدل گئےہیں۔ سویرےمدھو کالج جاتےہوئےاس سےمل کر گئی تھی۔ ایک دوبار اس کا فون آیا تھا۔ اس نہ کہہ دیا تھا کہ گاو
¿ں میں ہےکوئی واقعہ ہوا ہے۔ سب اپنےاپنےکاموں میں لگےہیں۔ ٠١ بجےپولیس کی بہت بڑی گاو
¿ں پہنچی ۔اوراس نےپورےمسلم محلےکو گھیر لیا اور ہر گھر کی تالشی لینےلگی ۔ اسےپتہ چلا کہ جاوید کےانسٹی ٹیوٹ کی بھی تلاشی کی جارہی ہےتو وہ وہاں پہنچ گیا۔ ”آپ شوق سےپورےانسٹی ٹیوٹ کی تلاشی لیجیےانسپکٹر صاحب “۔جاوید ایک انسپکٹر سےکہہ رہا تھا ”یہ تعلیم کا گھر ہےیہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہی۔ ماو
¿س پکڑنا سیکھایا جاتا ہے،بندوق یا پستول پکڑنا نہیں۔ “ ”ہم سمجھتےہیں مسٹر جاوید لیکن ہم مجبور ہیں ۔اخبارات نےاس واقعہ کو اتنا اچھالا ہےاور ایسی ایسی خبریں چھاپ دی ہیں کہ ہم پراوپر سےدباو
¿ آیا ہےکہ ہم بتا نہیں سکتی۔ ہمیں یہ سب کرنا پڑےگا ۔انسپکٹر نےجواب دیا۔ “دو تین گھنٹےمیں خانہ تلاشی ختم ہوگئی ۔پولیس کو گھروں سےچھری ،چاقو ، لکڑیاں لاٹھیاں جو کچھ ملا ضبط کر کےلےگئی۔ اور ساتھ میں ٠١،٢١ لوگوں کو بھی گرفتار کرکےلےگئی ۔”جاوید بھائی یہ کیا ہورہا ہی۔ “ اس نےپوچھا ۔”وہی جو ساری دنیا میں ہورہا ہے۔دہشت گردی کےنام پردہشت گردی ۔جھوٹےپرچار کےسہارےدہشت گردی پھیلائی جارہی ہی۔ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہی۔“ جاوید مایوسی بھرےلہجےمیں بولا۔”انسانوں کےضمیر مردہ ہوگئےہیں۔ سچائی ،ایماندرای ،اخلاص یہ کسی کو فرقہ پرستی کےالاو
¿ میں جلا کر خاک کردیا گیا ہی۔ اور اس الاو
¿ سےجو شعلےبھڑک رہےہیں جو آگ دہک رہی ہےوہ ماحول میں فرقہ پرستی ،نفرت ،حسد ،بغض ،کینہ کی گرمی پھیلا رہی ہی۔ “”جاوید بھائی جو الاو
¿ جلایا گیا ہےاگر اس کی آگ پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ آگ نہ صرف ہمارےگاو
¿ں کو بلکہ آس پاس کےسارےعلاقےکو جلا کر خاک کردیں گے۔“” نہ ہم نےوہ الاو
¿ بھڑ کا یا ہےاور نہ ہم میں اسےبجھانےکی طاقت ہے۔اسےبھڑکایاہےقرفہ پرست قوموں نے،قرفہ پرست سیاست دانوں نےاور وہ اس آگ میں معصوموں ، بےگناہوں کو جھونک کراپنےمفاد کی روٹیاں سیکیں گی۔ “جاوید مایوسی سےبولا ۔جاوید کےپاس سےوہ ہو چلا آیا ۔ اور دوکان پر بیٹھ کرمدھو کےفون کا انتظار کرنےلگا۔ مدھو آئےتو اس نےآنکھوں سےگھر چلنےکےلیےکہا۔ وہ اپنےکمرےمیں آیا ۔مدھو اس سےگاو
¿ں کی حالت پوچھنےلگی۔اس نےساری تفصیلات بتائی ۔” ہاں میں نےبھی اخبارات کی خبریں پڑھی ہیں۔ اور میں خود حیران ہوں کہ اس معاملےکو کس طرح رنگ دیا گیا ہی۔ وہ کمینہ مہندر اتنا ذلیل ہوگا میں نےسوچا بھی نہیں تھا ۔ وہ اپنےانا کےلیےہزاروں بےگناہوں کو اذیت دینا اپنی چاہتا ہےسمجھتا ہی۔ “مدھو دانت پیس کر بولی ۔ایک دو باتیں کرکےوہ چلی گئی۔ یہ کہہ کر اگر گاو
¿ں میں ایسی ویسی بات ہوئی تو اسےخبر کرےگی۔ اس کےجانےکےبعد جب وہ دوکان پر آیا تو رگھو نےاسےٹوکا ۔ ”کیوں سیٹھ جی معاملہ پٹ گیا؟ “ ”کیسا معاملہ ؟“ ”دل کا معاملہ ....لگےرہو .... پردیس میں دل بہلانےکےلیےکوئی ذریعہ بھی تو چاہیےآپ بھی آخر اپنےچاچا کےبھتیجےہیں۔ آپ کےچاچا بھی آپ کی طرح رنگیلےتھی۔“”رنگیلے؟“وہ رگھو کو گھور نےلگا۔”ارےبھائی آدمی گھر بار ،بیوی بچوں سےہزاروں میل دور مہینوں تک رہتا ہی۔ تو زندہ رہنےکےلیےرنگیلا بن کر رہےگا یا سنیاسی بن کر ....آکےچاچا نےبھی کئی عورتوں سےدل کا معاملہ جمارکھا تھا ۔“”کئی عورتوں سے؟“ وہ حیرت سےرگھو کو دیکھنےلگا۔ ”اں ان کا معاملہ کئی عورتوں سےتھا۔ وہ ان عورتوں سےاپنی ضرورت پوری کرتا تھا ۔اور وہ عورتیں اس سےاپنی جسمانی ہوس ۔“یہ باتیں سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ آج اسےاپنےچاچا کا ایک نیا روپ معلوم پڑا تھا۔ لیکن اسےاپنےچاچا سےکوئی شکایت نہیں تھی۔ بیچارا سالوں تک چاچی سےدور رہتا تھا ۔ دل بہلانےکےلیےاپنی ضرورت پوری کرنےکےلیےمعاملوں میں الجھےگا نہیں تو اور کیا کرےگا ۔لیکن اس کا معاملہ تھوڑا مختلف تھا۔ اس کےاور مدھو کےتعلقات کو چاچا کا سا معاملہ نہیں کہا جاسکتاتھا۔وہ مدھو کو اپنےدل کی گہرائی سےچاہتا تھا۔ مدھو بھی اسےاپنےدل کی گہرائی سےچاہتی تھی۔ اس کےذہن میں جنسی تعلقات کےخیال بھی نہیں آیا تھا۔ ابھی تک تواس نےمدھو کو چھوا بھی نہیں تھا۔ نہ مدھو کسی غلط نیت سےاس کےقریب آئی تھی۔ ایک دیوانگی تھی۔ دونوں کا دل چاہتا تھا۔ بس وہ ایک دوسرےسےباتیں کرتےرہی۔ ایک دوسرےکےپاس بیٹھے،ایک دوسرےکو دیکھتےرہی۔ وہ زندگی بھر کےلیےایک دوسرےکےہوجانا چاہتےتھی۔ لیکن دونوں کا معاملہ بڑا تیڑھا تھا۔ اسےپتہ تھا اگر ان کےتعلقات کا علم مدھو کےگھر والوں کو ہوا تو آگ لگ جائےگی۔ اگر مہندرکو معلوم ہوا تو اس کےٹکڑےٹکڑےکرنےکےدرپےہوجائےگا۔وہ مدھو کو چاہتا تھا ۔مدھو کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا۔ اور اس کی ملکیت پر کوئی حق جتائی۔ اسےلگ رہا تھا۔ ایک دوسرےکو پانےکےلیےانھیں کئی ایسےقدم اٹھانےپڑیں گےجو ان کےلیےکانٹوں بھرا راستہ ثابت ہوسکتےہیں۔ انگاروں سےبھری راہوں پر چلنا ہوگا۔ وہ تو ان سب باتوں کےلیےتیارتھا۔ لیکن کیا مدھو ان تکلیفوں کو سہہ پائےگی۔ اس نےاس سلسلےمیں مدھو سےبات نہیں کی تھی۔ اس کا ایک دل کہتا اسےمدھو سےاس سلسلےمیں صاف صاف بات کرلینی چاہیی۔ تو دوسرا دل کہتا اسےاس سلسلےمیں مدھو سےبات کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ۔سچےعاشق ،پیار کرنےوالےزمانہ کا سامنا کرتےہوئےہر قسم کا امتحان دینےتیار رہتےہیں۔ اسےپوار یقین تھا ۔مدھو اس کی طرح ہر امتحان میں پوری اترےگی۔ دوسرےدن جب مدھو کالج جانےلگی تو وہ بھی اس کےساتھ بس میں بیٹھ کر شہر آیا۔ آج وہ مدھو سےدل کھول کر ساری باتیں کرلینا چاہتا تھا۔ اس کےارادوں کو سمجھ کر اس کےجذبات ، احساسات کی قدر کرتےہوئےمدھو نےاس دن کالج جانےکا ارادہ ترک کردیا ۔ ”کیا بات ہی۔آج اس طرح میرےساتھ شہرکیوں چلےآئے؟“ مدھو نےپوچھا ۔”مدھو کئی ایسی باتیں ہیں جنھیں سوچ سوچ کر میں ساری رات نہیں سو سکا۔ “ ”ایسی کون سی باتیں تھےجنھوں نےہمارےسیاں کی نیند حرام کردی ۔ “مدھو نےاسےچھیڑا ۔”مذاق مت اڑاو
¿ .... میں سنجیدہ ہوں .... سو فیصد سنجیدہ تم بھی سنجیدہ ہوجاو
¿۔یہ ہماری زندگی کا سوال ہی۔ “اسےسنجیدہ دیکھ کر مدھو بھی سنجیدہ ہوگئی ۔”تم مجھ سےپیار کرتی ہو؟ “اس نےپوچھا۔ ”یہ بھی کوئی پوچھنےوالی بات ہی۔ “ ”میں بھی تم سےپیار کرتا ہوں تمہارےعلاوہ میرےلیےدنیا کی کسی بھی غیر عورت کا تصور بھی حرام ہی۔“”میں بھی صرف تمہیں اورتمہیں چاہتی ہوں ۔اب تو میں کسی غیر آدمی کےبارےمیں سوچ بھی نہیں سکتی۔ “”زندگی بھر میری بن کر رہوگی ؟“”میں تو چاہتی ہوں کےموت کےبعد بھی تمہارےساتھ رہوں ۔ساتھوں جنم تک تمہارےساتھ رہوں ۔“”مجھ سےشادی کروگی؟“”یہ بھی کوئی پوچھنےوالی بات ۔“”کیا تمہار ےگھر برادری والےہماری شادی کےلیےتیار ہوجائیں گی۔ “”یہ ذرا تیڑھا مسئلہ ہی۔ “مدھو سنجیدہ ہوگئی۔”میرےگھر والےاس شادی کےلیےکبھی تیار نہیں ہوں گی۔ اور برادری والوں کو اگر ہمارےتعلقات کا پتہ چلا تو وہ ایسی آگ لگائیں گےکہ اس میں ہمارا خاندان کا سب کچھ جل کر خاک ہوجائےگا۔ “”میرےگھر والوں کو ہماری شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔وہ خوشی خوشی ہر اس لڑکی کو اپنی بہو قبول کریں میں جسےپسند کروں ۔ اگر میں کہوں تو وہ تمہارےگھر بارات بھی لےکر جاسکتےہیں۔ “ وہ بولا ۔”جمی ....یہی تو مسئلہ ہے۔ میرےگھر تمہاری بارات نہیں آسکتی ہماری شادی منڈپ میں نہیں ہوسکتی۔ “”اگرمنڈپ میں ہوسکتی تو کس طرح ہوگی ۔“ ”ہم دونوں بالغ ہیں۔ اپنی مرضی کےمختار ہیں۔ ہم اپنی پسند کےمطابق شادی کرسکتےہیں۔ ہم کورٹ میں شادی کریں گی۔ گھر والے،برادری والےنہیں مانیں تو کہیں بھاگ جائیں گی۔ اور وہاں پر شادی کرکےاپنا نیا جیون شروع کریں گی۔ “”تم کس حد تک اپنی اس بات پر قائم رہوگی مدھو ؟۔ “”جمی .... میرا امتحان مت لو ۔اگر تم چاہو تو اس وقت اپناگھر ،وطن چھوڑ کر تمہار ےساتھ جہاں تم کہو چل سکتی ہوں ۔ “مدھو نےاعتماد سےکہا۔ مدھو کی بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گیا ۔کافی دیر چپ رہا پھر بولا ۔”مدھو ....تم اپنےگھر والوں کو ہماری شادی کےلیےراضی نہیں کرسکتی ۔میں نہیں چاہتا کہ کوئی تضاد بڑھے۔“”جمی.... میرےگھر والےہماری شادی کےلیےمشکل سےراضی ہوں گی۔ اگر میری محبت میں میری خوشی کےلیےوہ راضی ہوبھی گئےتو ہماری برادری والےراضی نہیں ہوں گی۔گاو
¿ں والےراضی نہیں ہوںگی۔ اور وہ کمینہ ....مہندر اگر انھیں ہمارےتعلقات کی بھنک بھی لگ گئی تووہ ایسی آگ لگائےگا کہ میں بتا نہیں سکتی۔ ہماری شادی اس گاو
¿ں میں ،منڈپ میں ہونی مشکل ہی۔ اگر تم مجھ سےشادی کرنا چاہتےہو تومجھےاس گاو
¿ں سےدور لےچلو۔ ہم کورٹ میں شادی کرلیں گی....کسی مندر میں شادی کرلیں گی.... کسی گردوارےمیں شادی کرلیں گی.... یا مجھےتمہارےگاو
¿ں لےکر چلو.... وہاں اپنےکسی دوست ،اپنےکسی رشتہ دار کےگھر مجھےرکھ دینا اور وہاں اپنی بارات لےکر آجانا ۔ “کہتےہوئےمدھو کی آنکھوں میں آنسو آگئی۔ اس نےاپنےہاتھوں سےاس کےآنسو پونچھے۔”مدھو تم جیسا چاہوگی میں ویسا ہی کروں گا ۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہماری وجہ سےکوئی فتنہ ،فساد نہ پیدا ہوجائی۔ ہمارےپیار کی وجہ سےتمہارےگھر والوں کو نیچےدیکھنا نہ پڑے۔ان کی بدنامی کی بنیاد پر ہم اپنےپیار کا محل تعمیر کرسکتے۔ بس اسی لیےمیں چاہتا ہوں کہ کوئی ....کوئی ایسا راستہ نکل جائےجس سےبخوبی انجام کو پہنچ جائے۔ “وہ خلاءمیں گھورتا بولا ۔بہت بحث ،سوچ ،غور و خوص کےبعد بھی کوئی مناسب راستہ نکل نہیں سکا جو دونوں اور ہر کسی کےلیےقابل قبول ہو۔ اسےلگ رہا تھا جس وقت اس کےدل میں مدھو کےلیےمحبت کونپل پھوٹی بھی اس وقت اس کی زندگی میں انگاروں کی فصل کی بویائی شروع ہوگئی تھی ۔ اب وہ فصل تیار ہورہی ہی۔ اب انھیں اس فصل کےانگارےہی کاٹنےہے۔پھر وہ اپنےذہن کو یکسوں کرنےکےلیےگاو
¿ں کےحالات پر باتیں کرنےلگی۔ مدھو اسےایسی باتیں بتانےلگیں جو اسےمعلوم نہیں تھیں۔ اس کا کہنا تھا جھوٹ کا اتنا زور دار پروپیگنڈا کیا گیا ہےکہ ہر کوئی مسلمانوں سےنفرت کرنےلگا ہی۔ مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنےلگا ہی۔ اور اسےمحسوس ہورہا ہےمسلمان اس کی جان کےدشمن ہےوہ کبھی بھی اس کی جان لےسکتی ہی۔ اس لیےبہتری اس میں ہےکہ وہ اپنی جان کی دفاع کےلیےخود آگےبڑھ کر مسلمانوں کی جان لےلی۔ یا ان کےسروں پر جو مسلمانوں کےخطرےکی تلوار لٹک رہی ہی۔ اس سےنجات پانا ہےتو سارےمسلمانوں کو اس گاو
¿ں بدر کر دیا جائی۔ مہندر بھائی جیسا نیتا ان کےدَل اور پارٹیاں ہی ان کی سچی رہنما ہےاور وہی ان کو اس مصیبت سےبچاسکتےہیں ۔اس لیےضرروت اس بات کی ہےکہ سب متحد ہوجائیں او ران کاساتھ دیں۔ ورنہ اس گاو
¿ں میں بھی وہی کچھ ہوسکتا ہےجو آٹھ دس سال قبل ممبئی میں ہوچکا ہی.... بم پھٹیں گےاور سارا گاو
¿ں تباہ ہو جائےگا ۔مسلمانوں نےاس کو برباد کرنےکی تیاری کرلی ہی۔ یہ باتیں اور بھی ذہنی تناو
¿ میں مبتلا کرنےوالی تھی۔ بہتر یہی تھا کہ ان باتوں کو چھوڑ کر اپنےبارےمیں سوچا جائی۔ اپنےپیار کےبارےمیں سوچا جائےگا ۔شام تک وہ ادھر اُدھر بھٹکتےرہےاور پھر گاو
¿ں کی بس میں بیٹھ کر واپس گاو
¿ں کی طرف چل دیی۔پورےراستےدونوں خاموش رہے۔ بس میں دونوں کا کوئی شناسا نہیں تھا اس لیےدونوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھےرہی۔ مدھو اس کی کاندھےپر سر رکھےپتہ نہیں کیا سوچتی رہی ۔بس اسٹاپ آیا تو وہ دونوں بس سےنیچےاترے۔ پہلےمدھو اتری نیچےاترتےہی اس کی چہرےکارنگ بدل گیا اور وہ ڈر کر پیچھےہٹ گئی۔ سامنےمہندر کھڑا تھا۔ پھر شاید اسےاپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسےمہندر سےاس طرح ڈر کر اسےاپنےکمزور اور غلطی کااحساس نہیں کرانا چاہیی۔ اس لیےاس نےبےنیازی سےایک نظر اس پر ڈالی اور آگےبڑھ گئی۔ اس کےپیچھےجمی اترا ۔مہندر پر نظر پڑتےہی وہ بھی ٹھٹھک گیا ۔ اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اپنےسامنےوہ مہندر کو پائےگا۔ ”کیا بات ہےسردارجی ....کہاں سےآرہےہو “مہندر اسےچھبتی ہوئی نظروں سےدیکھتا بولا ۔”سویرےجاتےہو ،شام کو واپس آتےہو ۔مدھو کےساتھ جاتےہو ....مدھو کےساتھ واپس آتےہو۔“مہندر کی یہ بات سن کر اس کا دل کانپ اٹھا۔ ”ایسی بات نہیں ہی۔“وہ تھوک نگل کر بولا۔”اگر ایسی بات نہیں ہےتو ٹھیک ہی۔ مجھےپتہ چلا کےتم مدھو میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لےرہےہو.... اگر یہ سچ ہےتو یہ اچھی بات نہیں ہی۔ مدھو میری ہی۔ اور صرف میری رہےگی۔ اگر کوئی اس کی طرف آنکھ بھی اٹھائےتومیں اس کی آنکھ نکال دوں گا۔ اس کو کوئی چھونےکی کوشش کرےتو ،تو اس کےہاتھ کاٹ دوں گا۔ اور اس حد سےآگےبڑھنےکی کوش کرےتو اسےاپنی نفرت اور غصےکےالاو
¿ میں جلا کر خاک کردوں گا.... سمجھی۔دھندہ کرنےآتےہو ۔دھندہ کرو اور دو پیسےکماو
¿ ۔عشق کرنےکی کوشش کروگےتو دھندےسےبھی جاو
¿ گےاور جان سےبھی ۔ “”جی....“پتہ نہیں کہاں سےبزدلی اس کی رگ رگ میں سما گئی تھی۔ وہ اس سےزیادہ کچھ کہہ نہ سکا ۔اتنا کہہ کر مہندر تیزی سےمڑا اور گاو
¿ں کی طرف جانےوالی سڑک پر آگےبڑھ گیا۔ وہ اپنی دوکان میں آکر سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ ”تو مہندرکو پتہ چل گیا۔ یا مہندر نےدیکھ لیا جان لیا کہ اس کا اور مدھو کا کیا رشتہ ہی۔ “اس کو مہندرکیا آنکھوںمیں نفرت کےشعلےبھڑکتےنظر آئی۔ جو ایسا محسوس ہورہا تھا ایک الاو
¿ کی شکل اختیار کررہےہیں۔ اور کچھ بد نما چہرےاسےاورمدھو کو پکڑ کر اس الاو
¿ میں دکھیل رہےہیں۔دونوں ان کی گرفت سےآزاد ہونےکےلیےکسمسا رہےہیں ۔ مگر انھیں اپنے پر جلتےالاو
¿ کی لپٹیں محسوس ہورہی ہیں۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477


 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel By M.Mubin Par 6 and Powered by Blogger.